Tashkil E Pakistan Aur Hamara Kirdaar By Hina Shahzadi
Tashkil E Pakistan Aur Hamara Kirdaar By Hina Shahzadi
عنوان، تشکیلِ پاکستان اور ہمارا کردار
ازقلم , حناشہزادی،.
آٸیں آج بات کرتے، ہیں،اُس کہانی کی،۔۔۔جسےنام دیا گیا تشکیلِ پاکستان،
تاریخ نگاروں نے ہمیشہ سے جب بھی تشکیلِ پاکستان، کے متعلق کُچھ بیان کرنے کی کوشش کی تو تعصب کی کینچی، کس قدر ظالمانہ طریقے سے استعمال کی ہے، کہ کبھی بھی اس کہانی کے اصل کرداروں کو بیان کرنے کی زحمت تک نہیں کی،حالانکہ یہ سب سے ضروری ہے،۔۔۔کہ تشکیلِ پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والے ہمارے عزیزوں کو رہنماٶں کو ایسے انداز میں بیان کیا جاۓجیسے کے اُنکے کردار ہیں،
آج کل انا دولت اورحُکمرانی کےلالچ کی دھول اس قدر لوگوں کی آنکھوں میں سما چُکی ہے،۔۔۔کہ بہت سے خاص کرداروں کا نام تک ان کی انا کی دھول کے نیچے کہیں چُھپ سا گیا ہے،۔۔۔
اور اب دیکھیں جیسا کے ہمارے بزُرگوں نے جوکُتب لکھی تھیں،اب وہ مُسلمانوں کے قبضے میں نہیں ہے،بلکہ حیرت انگیزبات یہ کہ وہ یورپ کے کُتب خانوں کی زینت ہیں،جن کو دیکھ کر سوچ کر دل ٹُکڑے ٹُکڑے ہوجاتا ہے،
اسی لیۓکہتے ہیں کہ“دُنیا کا قانون یہی ہے طاقت میں کمی آتے ہی حکومت چھن جاتی ہے،۔۔لیکن علم وادب پرکسی کا بھی قبضہ نہیں ہوسکتا،۔۔۔۔سو ہمارے آباٶاجداد نے جو کُتب لکھی اُن پر قبضہ ہونے کے باوجود بھی ہم تعلیم یافتہ ہیں،۔
اور ہم اپنی مرضی سے جی رہیں ہیں تو کبھی سوچا کے کن کی بدولت،۔۔۔۔کون ہیں وہ ہستیاں جنہوں نے خُود کی جان کی بازیاں لگا دی اور ہمیں ہماری آنے والی نسلوں کو سکون دیا،
تو آٸی اے آج ہم اُن عزیم ہستیوں کا ذکر دل وجان سے کرتے ہیں،
تو پہلے بات کرتے ہیں، ہمارے قومی لیڈر قاٸداعظم محمد علی جناح کی،۔جسے کون نہیں جانتا،۔۔لیکن افسوس کی بات یہ کہ ہم لوگ انہیں یاد رکھنے کے باوجود بھی بھول رہے ہیں،
جنہوں نے نظریہ پاکستان کی وضاحت کرتے ہوۓایک بار یُوں فرمایا ،“
کہ ہم نے پاکستان کامطالبہ محض، زمین کا ٹُکرا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا،بلکہ ہم ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، جہاں پر ہم اسلام کےاصولوں کو آزما سکیں،
تو اب اپنے ملک کا حال آپ خُود دیکھیں،۔۔۔۔اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہےاگر اتفاقی طور پر،ریڈیو یاٹی وی کے کسی بھی چینل پر اگر تلاوت شروع ہوجاۓ،ہماری جوان نسلوں کا منہ بگڑ جاتا ہے،۔اوروہ فوراً چینل بدل دیتے ہیں ،۔۔۔اور پھرہوتا کیا ہے کہ اسی پل وہ اپنے آٸیڈیل بھارت اور ہالی ووڈ کے ہیروز میں اپنی دلچسپی اسقدر ظاہر کرتے ہیں کے کیا ہی کہنے،۔۔۔اور یہ بات ہمارے لیۓ قدرِ شرمناک بات ہے،
کہ یہ ہیں ہمارے اسلامی اصول،۔۔۔۔۔
حلانکہ ،(خالدبن ولیدؓ)(مثنی'بن حارثہؓ)(محمدبن قاسمؒ)(طارق بن زیادؒ)(صلاحؒالدین ایوبیؒ)یہ سب انکے آٸیڈیل نہیں ہیں،۔۔۔بلکہ ہمارا دشمن ممالک ہی انکا آٸیڈیل ہے،
اور ہمارے ”قومی شاعر علامہ اقبال“ ہمارےدلوں کی دھڑکن،۔۔۔ہماری روح میں جذبہ پیدا کردینے والے عزیم شاعر،۔۔۔۔جنہوں نے اس ملک کے لیے اپنے قلم کی سانسیں اپنی سانسوں سے ملا ملا کر اپنے جوانوں کے دماغوں میں اُنکے خُون میں ایسا جذبہ پیدا کیا، کے آج ہم سب انکے بےمول الفاظ اور جوانوں کے جذبے کی وجہ سےاپنے الگ ملک میں بس رہے ہیں،۔
اسی طرح اور بھی بہت سے عزیم شاعر نے ضرورت پڑنے پربہت اہم کردار ادا کیۓ،(حسرت ، مولاناظفرعلی خاں،)اوراسی طرح بہت سی اور بھی ہستیاں ہیں جنہوں نے اسلامی حکومت کے لیۓبنیادیں فراہم کیں،۔۔ان میں،،،( محمود غزنوی،)انہوں نے ہندوستان میں سترہ حملے کیۓ،۔۔اور برصغیرمیں خاص کر اسلامی حکومت کے لیۓبنیاد فراہم کی،
یہی کُچھ پاکستان کے قیام کےحوالےسے ہی ہوا تھا کہ ”تشکیلِ پاکستان“میں شیعیانِ علی کا جو کردار رہا،ہے اورجس طرح اہلِ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ہی اہلِ بیت کےمتوالوں نے جسطرح اس تحریک کو اپنی جان اور اپنا خُون دےکر پروان چڑھایا“اور بلکہ اس کے برعکس انہی لوگوں کو ”تحریکِ پاکسان“ کے باب سےحرفِ غلط کی طرح ہی مٹا دیا گیا ہے
اور پھر 23 مارچ کی تقسیم کو برصغیر کی قراراداد پاس ہوٸی تھی جو بعد میں قرارِداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوٸی ’’ دراصل تب نظریہ پاکستان کی بنیاد بنی۔
اس قرارداد میں یہ طے پایاتھا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں پر ایک خود مختار ریاست بناکر مسلمانوں کے حوالے کر دی جائے تاکہ وہ اپنی مرضی سے وہاں اسلامی طور طریقے سے زندگی بسر کر سکیں اور اس کا انتظام مکمل طور پر وہاں کے مسلمانوں کے ہاتھ میں ہی ہو۔
اوراسی طرح اور بھی ہمارے بہت سے ایسے کردار ہیں جن کا ذکر ابھی بھی کم پڑھ گیا،۔۔اُن میں،۔۔(چوہدری رحمت اللہ علیہ)۔۔۔اور سرسیعد احمد خان بھی شامل ہیں،)
اس طرح "14 اگست 1947" کو پاکستان دنیا کے خطے میں پہلا نظریاتی ملک کہ جس کی بنیاد اسلامی نظریہ حیات تھی، وجود میں آیا۔اورہمارے بہت سے جوان بھاٸیوں کے خُون سے جلا یہ ”پاکستان کا چراغ،“۔۔۔اُنکے جنون سے کوشش سے، نبض چلی، میرے ملک پاکستان کی،
اور اس طرح آج ہم جی رہے ہیں اپنی زندگی،۔۔۔اپنی مرضی سے،۔۔۔لیکن پھر بھی اندر ہی اندر ایک دُکھ ایک تکلیف کھا جاتی ہے،۔۔۔کہ ہاۓہمارا کشمیر،۔۔۔کیسے آزاد ہوگا،۔؟کب ہوگا،۔۔؟
آخر کب وہ بھی اپنی آزادی کے نعرے لگا کر ہمیں اپنی مُسکراہٹ، کے حصار میں لپیٹےگا،
"دل وجاں سےیہ خواہش ہے حناء
میرا ”ماضی“ میراکشمر میرا ”آج“ ہوجاۓ"