وہ سلیپنگ ٹراؤزر شرٹ میں ملبوس تھی۔
ٹراؤز سے جھانکتی دودھیائی پنڈلیاں دامیر کی ساری توجہ سمیٹ گئی تھیں۔
منہم نے کمرے میں اسکی آمد کو محسوس کیا تھا پر بغیر کوئی ریکشن دیے وہ ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے اسے اگنور کررہی تھی۔
دامیر بیڈ کی پائنتی پہ بیٹھتے استحقاق بھری نظریں اس پہ گاڑے بیٹھا تھا۔
جبھی اس نے ذرا جھکتے اسکی پنڈلیوں پہ لب جمائے تھے۔
وقت نے ہے کیا ہم پہ کیسا ستم
تم بھی بیزار ہو برباد ہیں ہم
جانے کس راستے مجھ کو لے جائیں گے
بےدشا یہ میرے ڈگمگائے قدم
ساتھ دیتی پرچھائیاں اور مہربان رہے ہم۔۔۔۔۔
اسکی ساری نظراندازی اسوقت اڑن چھو ہوئی تھی وہ فوراً سیدھے ہوتے پاؤں سمیٹ گئی۔
عالم وحشت میں وہ اپنی پنڈلیوں سے اسکے لبوں کا دہکتا لمس کھرچنے لگی تھی جب دامیر کو اسکی حرکت غصہ دلا گئی تھی۔
"منہم اگر میں پیار سے پیش آرہا ہوں اسکا یہ مطلب نہیں کہ تم کچھ بھی کروگی تم مجھے ایسے نہیں جھٹک سکتی آئی سمجھ حق ہے میرا تم پہ۔"
اپنی تذلیل کہاں گوارہ تھی جب بھی ہوش وحواس میں ہوتے ہوئے بھی وہ اسکے قریب آنے کی کوشش کرتا وہ اسے جھٹک دیتی پر اب کے اسکا جرم اتنا بڑا نہیں تھا جتنا بیزار وہ نظر آتی تھی۔
"تمہیں اپنی ہوس پوری کرنے کیلئے بہت مل جائیں گی مجھے جانے دو دامیر علوی تمہیں خدا کا واسطہ وہ کنٹریکٹ کب کا ختم ہوچکا ہے۔"
منہم کی بات نے جلتی چنگاری پہ ٹھنڈی راکھ پھینکی تھی سارے جزبات مدھم پڑے تھے۔
وہ اسے بتانا چاہتا تھا کہ اس سے تعلق بننے کے بعد دامیر نے کسی لڑکی کو چھوا تک نہیں تھا اور وہ اتنی آسانی سے اسکی تذلیل کرگئی تھی۔
"وہ شادی تب تک کنٹریکٹ میرج تھی جب تک میں انجان تھا اپنے ساتھ جڑے رشتے سے پر اب تو ناممکن ہی سمجھ لو میری جان کہ تم مجھ سے دور جاسکو گی کبھی بھی نہیں۔"
دامیر تمام فاصلے مٹائے اسکی شہ رگ کے قریب ہوا تھا۔
شربتی ہونٹ اداس سے تھے جب سے وہ یہاں آئی تھی دامیر نے اسے خود سے بےحد لاپرواہ دیکھا تھا۔
"سنو! اپنا خیال رکھا کرو ورنہ بلکل تمہاری جیسی ایک اور لے آؤنگا پیار کرنے کیلئے جیلس مت فیل ہونا پھر۔"
دامیر کے لب اسکی نوز پن کو چھو رہے تھے۔
منہم کا دل پسلیوں میں دھڑکنے لگا تھا۔
کمرے میں چھایا فسوں 'ذومعنی خاموشی ان کہی بیان کرتی کہانیوں کے راز اسوقت مکمل طور پہ ان دونوں کے حواس پہ چھائے تھے ۔
دامیر کے لبوں نے پیڑی زدہ ہونٹوں جان بخشی تو وہ کسمسائی تھی۔
"یہ انتظار بہت جان لیوا رہا ہے من تمہاری تمام تر فضول گوئی کے باوجود بھی یہ دل کا عقیدہ بنا تھا کہ تم ایسی نہیں ہو کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا تھا تمہیں اور پھر بیزار سا یہاں آبسا اگر مجھے پتا ہوتا تم مجھے یہاں ملوگی تو سب کچھ چھوڑ کے پہلے ہی آجاتا۔"
دامیر کی سرگوشی پہ منہم کی آنکھوں سے آنسو بہانے لگے تھے جنہیں بلاجھجھک ہی دامیر علوی نے لبوں سے چنا تھا۔
"میں اب بھی یہ رشتہ نہیں نبھا سکتی مرسل پلیز۔"
جادوئی لمحوں کی ثاثیر مدہم پڑنے لگی تھی۔
"لیکن میں نبھانا چاہتا ہوں منہم جان اور جی جان سے نبھاؤنگا بھی'تم اپنی مجبوریاں مجھے سے بانٹ لو میں ان سب مجبوریوں کا مدوا کردونگا تمہارا اسسٹنٹ بن کے۔"دامیر کے کھلتے لبوں کی جنبش وہ اپنے چہرے پہ محسوس کررہی تھی جبکہ اسکے مضبوط مردانہ ہاتھ منہم کو اپنے حصار میں جکڑتے جارہے تھے۔
وہ اس رات کی مریض بنی تھی کوئی اور مسیحا نہیں تھا تبھی اسکے شانے پہ سر رکھتے اپنے درد چھہانے چاہے تھے۔
دامیر نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے تھامے اپنے لبوں سے لگایا تو وہ افسردہ دکھائی دینے لگی ۔
"منہم۔۔۔"
"میں یہ سب نہیں چاہتی 'میرے خیال سا میرا ایک امتحان کافی تھا ۔"
وہ اس سے نظریں چرائے بولی تھی۔