"آئی رئیلی مسڈ یو پلیز منہم یہ ضد چھوڑ دو نا کیا تیمور بھی تمہارے لیے معنی نہیں رکھتا کہ اسکیلئے ہی صحیح تم اس رشتے کے بارے میں سوچو؟"
دامیر کی سرگوشیاں منہم کی جان نکالنے لگی تھیں۔
"مجھے چھوڑو دامیر کیا کررہے ہو۔"
وہ سنگدلی کی انتہا پہ تھی ۔دامیر بھی جیسے ہوش میں آیا تبھی دور ہوتے تیمور کو اٹھائے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔
منہم کا بےحسی کا یہ لبادہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکا تھا۔
موسم نے تیور بدلے تو وہ تیمور کی فکر میں گھلتی اسکے کمرے تک چلی آئی تھی۔
دامیر نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتے وہاں آنے کی وجہ دریافت کی تھی جیسے۔
"مجھے تیمور کی فکر ہورہی تھی کیا میں اسے اپنے ساتھ لے جاسکتی ہوں؟"
وہ اس سے نظریں ملائے بغیر بولی تھی۔
"کبھی تیمور کے پاپا کی تو فکر نہیں ہوئی ایسے؟"
دامیر دلچسپی سے اسکے چہرے کے اتار چڑھاو دیکھ رہا تھا۔
"فضول گوئی نہیں سننے آئی میں یہاں۔"
وہ اسے دوٹوک جواب دیتی تیمور کی جانب بڑھی تھی۔
"سنو اس بستر پہ کافی جگہ ہے چاہو تو سو سکتی ہو تم یہاں کیونکہ اگر تم اسے لے کے جاو گی تو مجھے تمہارے ساتھ ساتھ اسکی بھی ٹینشن لینی پڑے گی۔"
"یہاں آنا ہی فضول ہے۔"
"منہم رکو۔۔۔
دامیر نے اسکا ہاتھ تھاما تھا وہ بےتوازن سی اسکی طرف کھینچی چلی آئی تھی۔
سہارا لینے کو اسکے کشادہ سینے کا سہارا لیا تھا۔
خوابیدہ آنکھیں اس ساحرہ کے حسن میں جکڑنے لگی تھیں۔